Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

صفدر اور مثنیٰ بیڈ روم میں تھے۔ مثنیٰ سلیپنگ سوٹ میں ملبوس بستر پر تکیوں کے سہارے نیم دراز تھیں ان کے گولڈن بال شانوں پر بکھرے ہوئے تھے، ان کے خوب صورت چہرے پر سنجیدگی تھی، وہ سوچوں میں گم تھیں۔ صفدر بال سنوارتے ہوئے آئینے میں ان کو بغور دیکھ رہے تھے۔

”کن سوچوں میں گم ہو؟ اینی پرابلم…؟“ وہ ان کے قریب ہی بیٹھ گئے تھے۔ مثنیٰ چونک کر سیدھی ہوگئی تھیں۔

”کوئی پرابلم نہیں ہے، بھلا مجھ کو کیا پرابلم ہوسکتی ہے؟“ وہ قصداً مسکرائی تھیں۔ صفدر کے لبوں پر بھی مسکراہٹ ابھر آئی تھی۔

”سعود کو یاد کررہی ہیں تو چلی جائیں۔ سیٹ بک کروادیتا ہوں۔“

”یاد تو آتا ہے، بیٹا ہے میرا… مگر اس کے پاس جاکر بوریت کا احساس ہونے لگتا ہے، وہ بہت مصروف رہتا ہے اپنے دوستوں میں… پڑھائی میں… دور ہوکر وہ قریب محسوس تو ہوتا ہے اور قریب ہوکر دور ہو تو پھر وہ دوری بہت اذیت ناک لگتی ہے۔
(جاری ہے)


”تمہاری مرضی ڈئیر!“ انہوں نے پیار سے ان کے بال بگاڑے تھے۔

”شانزے کی کال آئی تھی، آپ کا سیل آف تھا، اس لیے اس نے مجھے کال کی۔“

”اوہ بس! میٹنگ کے دوران آف کیا تو بھول ہی گیا۔ خیر کیا کہہ رہی تھی شانزے؟“ وہ بستر پر دراز ہوگئے تھے۔

”پکنک پارٹی کل کسی ہل اسٹیشن پر وہ ارینج کررہی ہیں، انوائٹ کیا ہے ہم دونوں کو… بے حد اصرار کررہی تھیں کہ میں نہ آسکوں تو آپ کو ضرورت شرکت کرنی ہے ورنہ پارٹی بے مزار ہے گی۔

”کیوں نہیں ! ضرور چلیں گے۔ زبردست انجوائے منٹ ہوگی، سال میں ایک مرتبہ شانزے پارٹی دیتی ہے پھر پورے سال انتظار رہتا ہے۔“

”سوری صفدر! میں نہ جاسکوں گی۔“ وہ معذرتی لہجے میں بولیں۔

”کہیں اور انوائٹ ہیں؟“

”یس! ایک چیریٹی شومیں چیف گیسٹ ہوں۔“

”اوکے! پھر تو جانا ضروری ہے مگر پارٹی میں مس کروں گا۔“

”ایک دن کی تو بات ہے، اس میں یاد کرنے کی فرصت کہاں ملے گی آپ کو۔
کل اس وقت آپ یہیں موجود ہوں گے۔“

”آپ اس دل کو نہ سمجھ سکیں ہوں اور نہ کبھی سمجھ پائیں گی۔“ وہ اظہار محبت کررہے تھے مگر مثنیٰ کے انداز میں سردمہری تھی۔

###

”شش… شش… !“ ماہ رخ نے مڑ کر دیکھا۔ گلفام کھڑکی میں کھڑا اس کو اشارے کررہا تھا، اس نے گھور کر دیکھا تو وہ بھولپن سے مسکرادیاتھا۔

”اشارے کیوں کررہے ہو لڑکیوں کی طرح؟ مردوں کی طرح بات کرو۔
“ گندمی رنگت و عام سے نقوش والا گلفام جو چچا کا بیٹا تھا، اس کو ایک آنکھ نہ بھاتا تھا۔ وہ سخت چڑتی تھی اس سے… گلفام اس پر اس قدر ہی فریفتہ رہتا تھا،اس کی محبت میں ماہ رخ کی ساری بے التفاتی و خفگی اپنی شناخت کھو بیٹھتی تھی، وہ اس کے ہر انداز کا دیوانہ تھا۔

”ادھر آ… دیکھ میں تیرے لیے کیا لایا ہوں؟“ اس نے سرگوشی میں اس انداز سے کہا کہ باورچی خانے میں کام کرتی امی اور خالہ تک اس کی آواز نہ پہنچ سکی تھی۔
ماہ رخ نے جو اس کے ہاتھ میں دبی ہوئی کوئی گولڈن جیولری دیکھی تو تمام بدمزاجی بھلا کر اس کے پاس آگئی۔ ”یہ میں تیرے لیے لایا ہوں، تیری گوری کلائی میں خوب صورت لگے گا۔ اس نے گولڈن بریسلیٹ اس کی طرف بڑھایا جس میں سرخ موتی لٹک رہے تھے۔ گلفام کی نگاہوں میں شوق کی دنیا آباد تھی۔ رخ نے بریسلیٹ کو الٹ پلٹ کر دیکھا پھر اس کے چہرے پر ناگواری پھیلنے لگی۔

”شوتو ایسے مار رہا تھا جیسے سونے کا بریسلیٹ لایا ہو۔“ غصے سے کہتے ہوئے جھٹکے سے بریسلیٹ اس کو تھمایا تھا۔ لمحے بھر کو اس کے چہرے پر دھواں سا پھیلا تھا۔ وہ ہتھیلی پر رکھے بریسلیٹ کو دیکھتا رہ گیا تھا۔ مجھے یہ غریبوں والے گفٹ پسند نہیں ہیں، یہ کسی اپنی جیسی کودے دو جاکر… پیار کرنے لگے گی تم سے…“ وہ اس کے چہرے کے بدلتے رنگوں سے بے نیاز سفاکی سے کہہ رہی تھی جب کہ وہ اس کی ہر ادا پر مرمٹنے والا تھا، تڑپ کر گویا ہوا۔

”میں تم سے پیار کرتا ہوں رخ ! اور ساری زندگی کرتا رہوں گا۔“

”اچھا! میں تو تم سے پیار نہیں کرتی اور نہ کبھی کروں گی۔“

”پیار کرتے نہیں ہیں، پیار ہوجاتا ہے۔ جیسے مجھ کو تم سے ہوگیا اور ایک دن تم کو بھی مجھ سے محبت ہوجائے گی۔“ گلفام کے لہجے میں یقین و صداقت کی قندیلیں روشن تھیں۔

”سیاہ فام! شکل دیکھی ہے اپنی؟ میں اور تم سے محبت کروں گی؟“ وہ استہزائیہ انداز میں ہنسی تھی۔

”ہاں! مجھے یقین ہے۔ محبت دل سے ہوتی ہے چہرے سے نہیں۔“

###

دادی آصفہ آنٹی کے ہاں سے آئیں تو پری کو گھر میں دیکھ کر پوچھنے لگیں۔

”اپنی نانو کے ہاں نہیں گئیں؟“

”گئی تھی… نانو گھر پر نہیں تھیں، واپس آگئی تب ہی۔“

”تم نے ان کو بتایا نہیں تھا جانے کا…؟“

”تمہیں ! پپا نے کہا اور میں چل پڑی، یاد نہیں رہا نانو کو کال کرکے بتانا کہ میں آرہی ہوں۔
پپا نے کہا تھا میں ڈراپ کردوں گا، میں بہت خوش ہوگئی تھی، پپا نے مجھے اتنی اہمیت دی تھی اور نامعلوم ان کو کس طرح پتا چل گیا تھا کہ مجھے نانو کے ہاں جانا ہے۔“

”بہت حساس و ذہین ہے فیاض! وہ اسی طرح سب کا خیال رکھتا ہے۔“ وہ ممتا بھرے لہجے میں بیٹے کی تعریف کررہی تھیں۔

”مگر میرا تو پہلی دفعہ خیال کیا اور وہ بھی ادھورا… خود ڈراپ کرنے نہیں گئے نانو کے ہاں، طغرل بھائی کوبھیج دیا۔

”خیر اب ایسی بھی بات نہیں ہے، خیال تو وہ تمہارا سب سے زیادہ رکھتا ہے۔ یہ دوسری بات ہے اس کو اظہار کی عادت نہیں ہے۔“

”دادی! ہمارے پاس چند ہی تو رشتے ہوتے ہیں جن سے اظہار اچھا لگتا ہے، حوصلہ ملتا ہے اور زندگی اچھی گزرنے لگتی ہے۔“ انہوں نے پیار سے اس کے افسردہ چہرے کو دیکھا اورر سینے سے لگالیا۔

”پری! تیرا باپ تجھ سے پیار نہیں کرتا، یہ سوچ سوچ کر سارا دن تو خون جلاتی رہی ہوگی، بے وقوف! ہر کسی کے پیار کرنے کا انداز الگ ہوتا ہے۔
کوئی جتا دیتا ہے، کوئی خاموش رہتا ہے اور جو خاموش رہتا ہے ضروری نہیں کہ وہ پیار ہی نہیں کرتا بلکہ ایسے لوگ تو زیادہ محبت کرتے ہیں۔“ وہ حسب عادت اس کی دلجوئی میں لگی ہوئی تھیں کہ دستک دے کر طغرل کمرے میں آیا اور اس کو دادی کے سینے سے لگے دیکھ کر جل کر رہ گیا۔

”یہاں پر یہ ہر وقت جذباتی منظر اداہوتے ہیں دادی! آپ کی محبت پہ میرا بھی کچھ حق ہے یا سارا مخالف پارٹی کو سونپ دیا ہے؟“

”دادی کی محبت سمندر کی مانند ہوتی ہے۔
“ دادی نے کہا۔

”میرے حصے میں صرف کنارا ہے، تیر تو کوئی اور ہی رہا ہے۔“ وہ کن اکھیوں سے پری کو دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا جو دادی کے پاس سے ہٹ کرسی پر بیٹھ گئی تھی۔ اب وہ اس جگہ پر براجمان تھا جہاں چند لمحے قبل وہ ان کے سینے سے لگی بیٹھی تھی۔

”میں کہتی ہوں تجھے اتنی باتیں بنانی کہاں سے آگئیں؟“

”یہ تو خود بخود ہی آتی ہیں دادی جان! کوئی ہنسنا سیکھتا ہے تو کوئی رونا… جیسے یہ آپ کی لاڈلی پری صاحبہ! ہر وقت پرانے دور کی گھسی پٹی ہوئی فلم کی روتی بسورتی، بوریت پھیلاتی ہیروئن بنی رہتی ہیں۔
“ وہ براہ راست حملہ کرنے کا عادی تھا۔

”اور آپ کون ہیں…؟ کسی گھٹیا فلم کے مسخرے؟“

”ہالی ووڈ والے آج بھی مجھے ہیرو کے رول پر سائن کرنے کو تیار ہیں، وہ تو میں خود ہی انٹرسٹڈ نہیں ہوں اس فیلڈ میں۔“ ا س نے کالر جھاڑتے ہوئے اداسے کہا۔

”اوہ ! کیا بات ہے ! یہ منہ اور مسور کی دال؟“

”ارے ارے کیا ہورہا ہے یہ … شرم و حیا نہیں ہے دونوں کو … دادی کا بھی لحاظ نہیں ہے…؟ ذرا سی بات پر بچوں کی طرح لڑنے لگتے ہو۔
“ پری کو بھی میدان میں اترتے دیکھ کر ان کو مداخلت کرنی پڑی تھی۔

”دادی! پہل طغرل بھائی ے کی ہے میں نے نہیں…“

”ہاں ہاں! بڑا چنگیزی خون ہے تمہارے اندر… بدلہ نہیں لو گی تو ناک کٹ جائے گی۔“

”اور ناک کٹننے کے بعد کتنی خوب صورت لگو گی، تصور کرو۔“ وہ قہقہہ لگا کر مخاطب ہوا تھا۔ پری نے شکایتی نظروں سے دادی کی طرف دیکھا اور غصے بھرے انداز میں کمرے سے چلی گئی۔

”کیوں ہاتھ دھوکر اس بچی کے پیچھے پڑگئے ہو طغرل! مذاق بھی کبھی کبھی کیا جائے تو اچھا لگتا ہے ورنہ فسادبن جاتا ہے۔“

”یہ اتنی سڑیل مزاج کیوں ہے؟ گھر میں عادلہ، عائزہ بھی ہیں، وہ ہر وقت ہنستی مسکراتی رہتی ہیں، زندہ دل ہیں۔ پری میں تو لگتا ہے کوئی صدیوں پرانی روح گھس گئی ہے۔ بے زاری، اکتاہٹ وہ ہر ایک سے خفا دکھائی دیتی ہے۔

”پری کے حالات ان سے مختلف ہیں۔ تم نہیں جانتے اس کی محرومیوں کو…“

”کیسی محرومیاں دادی جان! میں نے کوئی ایسی بات محسوس نہیں کی۔“

”تم محسوس کرنے بھی کیوں لگے…؟ تمہاری زندگی پری کی زندگی سے بالکل جدا ہے۔ تمہیں ماشاء اللہ ماں، باپ کی محبت ملی ہے، بہن بھائی کا پیار ملا ہے، بچپن سے آج تک تم بھرپور محبت و چاہتوں کے درمیان رہے ہو۔

”پری ان رشتوں سے محروم نہیں ہے۔ فیاض انکل، صباحت آنٹی، عادلہ اور عائزہ جیسی بہنیں اس کے پاس ہیں اور آبرو جب بورڈنگ سے آتی ہے تو پری کی گود میں ہی چڑھی رہتی ہے، سب ہی محبت کرتے ہیں اس سے۔“ طغرل نے آنکھ کھولتے ہی خود کو سب کی محبت کا مرکز پایا تھا گھر اورگھر سے باہر وہ ہر دل عزیز تھا، اس کے لیے نفرت، لاتعلقی و بے اعتنائی اجنبی تھی۔

”وہ سب رشتوں کے ہوتے ہوئے بھی ان رشتوں کی اپنائیت و مٹھاس سے محروم ہے، سب اس کے اپنے ہیں مگر درحقیقت کوئی ”اپنا“ نہیں ہے۔ خیر، یہ بتاوٴ کوئی کام تھا، بڑی جلدی میں آئے تھے؟“ انہوں نے اس کی آنکھوں میں الجھن دیکھ کر بات بدل دی تھی۔

”مما کی کال آئی تھی، وہ کہہ رہی ہیں آپ میرے ساتھ چند دنوں کے لیے مری چلیں۔ مری کا موسم بہت اچھا ہے، آپ کو بھی وہاں جاکر اچھا لگے گا۔

”نہیں بابا! مجھے تو معاف کرو۔ اپنی ماں کو کہہ دو خود ہی اچھے موسم میں وقت گزارتی رہے۔ ہونہہ! خود تو جانے کے بعد آنے کا نام نہیں ے رہی ہے، اب ساتھ مجھے بھی گھسیٹا جارہا ہے۔ میں جانے والی نہیں ہوں۔ ہاں، تم شوق سے جاوٴ، تمہیں منع نہیں کروں گی۔“

”سوری کہہ دوں گا مما کو… وہ مان جائیں گی،میں بھی آپ کوچھوڑ کر جانے والا نہیں ہوں۔“ اس نے ان کے شانے پر سر رکھتے ہوئے کہا۔

   2
0 Comments